مبتدا

( مُبْتَدا )
{ مُب + تَدا }
( عربی )

تفصیلات


بدء  اِبْتِدا  مُبْتَدا

عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٠٥ء کو "دیباچہ گلزار عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : مُبْتَدَعات [مُب + تَدَعات]
١ - جہاں سے ابتدا کی جاش، ابتدا، شروع، آغاز، اوّل، منبع، سرا۔
"عبادت ہی ہمارا مبتدا ہے اور عبادت ہی منتہا۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ١٦٨:٣ )
٢ - [ نحو ]  جملۂ اسمیہ کے دو حصوں میں سے پہلا جز جس کے متعلق کچھ کہا جائے (دوسرے جز کو خبر کہتے ہیں یعنی مبتدا کے متعلق جو کچھ کہا ہے)۔
"آریائی زبانوں میں ایک چیز مشترک ہے، ان میں حرفِ ربط، اہمیت خاص رکھتا ہے اور اگر اسے خارج کر دیا جائے تو مبتدا اور خبر سے بننے والے جملے یکسر مہمل ہو جائیں۔"١٩٥ء، نگار، کراچی، ستمبر، ٢٩