باج گیر

( باج گِیر )
{ باج + گِیر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'باج' کے ساتھ مصدر گرفتن سے مشتق صیغۂ امر 'گیر' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے 'باج گیر' مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٩٣٥ء میں عزیز لکھنوی کے 'صحیفۂ ولا" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - خراج یا محصول لینے والا۔
 وہ شاہنشاہ جو ہے باج گیر مسند آرا یاں وہ شاہنشاہ جس نے سلطنت دی ماہ کنعاں کو      ( ١٩٣٥ء، عزیز لکھنوی، صحیفۂ ولا، ١٨٩ )