تڑخنا

( تَڑَخْنا )
{ تَڑَخ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کے لفظ 'تٹ' کی محرفہ شکل 'تڑخ' کے آخر پر اردو علامت مصدر 'نا' لگانے سے بنا جو اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٢٥ء کو "سیف الملوک بدیع الجمال" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - پھٹنا، شق ہونا، دراڑ پڑنا، چٹخنا۔
"اب اس دیوان کا اللہ ہی مالک ہے کاغذ سخت ہو کر تڑخنے لگا ہے۔"      ( ١٩٣٠ء، مضامین فرحت، ١٩٢:٢ )
٢ - بلند آواز پیدا کرنا۔
"طیارہ شکن توپیں آگ اگلنے لگیں، مشین گنیں تڑخیں اور فضا میں انجنوں کی گھڑگھڑاہٹ پھیل گئی۔"      ( ١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ٢٠١:١ )
٣ - (چمڑے وغیرہ میں) دراڑ پڑنا، چٹکنا۔
"ہر ہفتہ تیل میں کٹہرا بھگو کر ساز پر ملا جائے اس سے چمڑا تڑخنے نہیں پاتا اور ملائم رہتا ہے۔"      ( ١٩١٤ء، خانہ داری (معاشرت)، ١٩٨ )