مشیر

( مُشِیر )
{ مُشِیر }
( عربی )

تفصیلات


شور  مُشِیر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق صفت ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٨٠ء کو "کلیات سودا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( واحد )
جمع استثنائی   : مُشِیران [مُشی + ران]
جمع غیر ندائی   : مُشِیروں [مُشی + روں (و مجہول)]
١ - مشورہ یا رائے دینے والا، تدبیر بتانے والا، صلاح دینے والا۔
"خاندانی معاملات میں اپنی والدہ کی مشیر اور ہمنوا تھیں۔"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ١٢٤ )
٢ - کسی محکمے کا وزیر یا دیوان، منتری، کارکن یا کارپرداز۔
"صدر بش اگست ١٩٠ء کے وسط میں اپنے قومی سلامتی کے مشیر برنٹ سکو کرافٹ کے ساتھ کشتی میں ایک طویل سیر پر گئے۔"      ( ١٩٩١ء، نیا عالمی نظام اور پاکستان، ٩٦ )
٣ - عہدے دار جو بادشاہ یا حاکم کو مشورہ دینے کا مجاز ہو۔
"مشیر پر جو اعتبار بادشاہ کرتا ہے وہ کسی اور شخص پر نہیں کیا جاتا۔"      ( ١٨٩١ء، محاسن الاخلاق، ٤٠٧ )
٤ - اشارہ کرنے والا۔
"اشارہ کرنے والے کو مشیر اور جس لفظ سے اشارہ کیا جاتا ہے اس کو اسم اشارہ کہتے ہیں۔"      ( ١٩٧٣ء، عقل و شعور، ٧٣ )
  • a counsellor
  • senator
  • minister