حرف استفہام
١ - (استفسار امر کے لئے) آیا ،چہ
کیا کر گیا ایک جلوہ مستانہ کسی کا رکتا نہیں زنجیر سے دیوانہ کسی کا
( ١٩٣٤ء شعلۂ طور، ١٢ )
٢ - استفسار شے کے لیے، حقیقت جاننے کے لیے) حقیقت کیاہے، ماہیت یا حیثیت کیاہے۔
باندھی نیت رات تو دل بول اٹھا بال بچے صبح کو کھائیں گے کیا
( ١٩٣٠ء، اردو گلستان (ترجمہ)، ٩٣ )
٣ - کون سا، کون سی۔
اٹھانے کو رکھا ہے لاشہ کسی کا یہ کیا وقت ہے آئنے آرسی کا
( ١٨٨٨ء، صنم خانہ عشق، ٥٦ )
٤ - کیسا، کس طرح کا، کس نوعیت کا۔
یہ کیا خیال خام کہ ہم سا حسین نہیں دنیا میں سینکڑوں ہیں فقط ایک تمہیں نہیں
( ١٨٩٦ء، احسن الکلام، ١١٤ )
٥ - کس قدر، کتنا۔
دم آخر وہ چلے آتے تو احسان ہوتا مشکل نزع کا کیا مرحلہ آساں ہوتا
( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ١٩ )
٦ - کچھ کا کچھ، جدا، الگ، مختلف
شوخی،ادا، حجاب، تجاہل، دغا، فریب، سب کچھ ہے ایک کیا میں ستم کپش کیا نہیں
( ١٩١٩ء، درشہوار بیخود، ٤٨ )
٧ - نہ صرف، نہ فقط، نہ محض
'اول الذکر شریف اور آخر الذکر پولیٹیکل اور ترکوں کا کیا بلکہ مسلمانوں کا سخت دشمن ہے"
( ١٩٢٠ء، برید فرنگ، ٢٤ )
٨ - (زور بیان کے لئے یا کسی عجیب بات کے اظہار کے لئے) بیانیہ کلمہ۔
"گھوڑا کیا ہے بجلی ہے"
( ١٩٧٣ء، جامع القواعد، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ، ٣٦ )
٩ - کیوں، کسی لیے، کس واسطے
اتار لی سر بازار جس نے رخ سے نقاب حجاب آئے اسے سو میں کیا ہزار میں کیا
( ١٩٣٢ء، ریاض رضوان، ٥٤ )
١٠ - (اظہار کثرت یا شدت کے لیے) کس قدر، کتنا، بہت زیادہ، زیادہ سے زیادہ۔
" کچھ نہ پوچھو کہ ان انقلابات میں کیا کچھ جاتا رہا"
( ١٩٩٢ء، افکار، کراچی، اپریل ٢٦ )
١١ - (اظہار عظمت کے لیے) تعریف کے قابل۔
جانتے ہیں تمہارے شیدائی تم نہیں جانتے کہ کیا ہو تم
( ١٩٩٥ء، جان سخن، ٨٤ )
١٢ - (تحسین و آفرین کے لیے) خوب، عمدہ، بہت اچھا۔
چومیے کیوں نہ اس کے ہاتھوں کو کیا مٹاتا ہے کیا بناتا ہے
( ١٩٨٨ء، آنگن میں سمندر، ٧٧ )
١٣ - (اظہار محبت قلت کے لیے)معمولی، خفیف، تھوڑی سی، کم۔
"اس کی آمدنی کیا، زیادہ سے زیادہ پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار"
( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، )
١٤ - کیوں کر، کیسے، کس طرح۔
سن اے غارت گر جسن وفا سن شکست قسمت دل کی صدا کیا
( ١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٥٧ )
١٥ - بہت کچھ، سب کچھ
"اگر اس کو ذرا بھی شبہ ہو جائے تو پھر وہ کس قدر بگڑے گا، لوگوں سے کیا کیا کہے گا"
( ١٩٦٩ء، افسانہ کر دیا، ٢٢٩ )
١٦ - (اظہار نفی کے لیے) نہیں، کبھی نہیں۔
وہ لچا ہے، کیا اس کی اوقات ہے کمینہ ہے، یا جی ہے بدذات ہے
( ١٩١٠ء قاسم اور زہرہ، ٧ )
١٧ - بے حقیقت، کچھ نہیں۔
"ان کا کیا ہے وہ تو ہیں ہی جنگلی، وحشی، بن مانس لوگ"
( ١٩٥٦ء، آگ کا دریا، ٧٦٥ )
١٨ - بے اعتباری اور بے وقعتی کے لیے۔
رنج کیا رنج کہ جس کی نہیں کچھ اصل و نمود شکوہ کیا شکوہ کہ جس کی کوئی بنیاد نہ ہو۔
( ١٩١١ء دیوان ظہیر دہلوی، ١١١:٢ )
١٩ - عرض، مطلب، حاصل
ہمیں کیا جو پھرتے ہو تم عرش پر کبھی جلوہ گر بام پر بھی تو ہو
( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ١٤٤ )
٢٠ - (تنفر، بے زاری یا لاتعلقی کا اظہار کرنا) مضائقہ نہیں، پروا نہیں۔
"ہزاروں ملیچھ ( مسلمان) مارے جائیں مجھے کیا! ہاں روز ایک کنور کو گدی پر بٹھائیں"
( ١٩٣٩ء، افسانۂ پدمنی، ١١٧ )
٢١ - (کسی بات کے انحصار کے لیے) جیسے ہی، جونہی، چونکہ۔
بسنت رت کیا جہاں میں آئی پیام دور بہار آیا نظر ہے مست شراب، جلوہ کہ روئے گل پر نکھار آیا
( ١٩٢٦ء، مطلع انوار، ٣١ )
٢٢ - خواہ، چاہے۔
شغل بہتر ہے عشق بازی کا کیا حقیقی و کیا مجازی کا
( ١٧٠٧ء کلیات ولی، ٢٨ )