حرف بیانیہ ( واحد )
١ - یہ کسی بات کی وضاحت یا بیان کے لئے جملۂ بیانیہ کے شروع میں آتا ہے۔
"اب منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ گئی ہو . بولتی کیوں نہیں ہو کہ میں یہ سب کچھ غلط کہہ رہی ہوں"
( ١٩٨٨ء، تبسم زیر لب، ١٤٠ )
٢ - "گویا" 'جیسے' کے محل پر۔
ہوئے ہیں ہر بن موئے مثرہ سے جاری اشک کہ بند کھول دیا، مشک کے دھانے کا
( ١٨٧٣ء، کلیات قدر، ١٠٥ )
٣ - 'جو' کے معنی میں۔
"تا ہم جہاں تک وہ خوشی ہے کہ ہمیں حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔وہ ایک معین شے ہے"
( ١٩٢٣ء، اصول اخلاقیات، ٤٨ )
٤ - "یا" کی جگہ
کوئی دیوا جلا کہ آئی صبح کوئی غنیچہ کھلا کہ شام ہوئی
( ١٩٨٨ء، تارپیراہن، ١٦٤ )
٥ - چونکہ کے معنی میں۔
"اب کے ہمارے کام کا یہ جزو ختم وہا ذرا اس نقطہ کا پتہ چلائیں جہاں سے ہم لوگ ادھر مڑے تھے"
( ١٩٣٣ء، ریاست(ترجمہ) ٤٧٣ )
٦ - برائے علت و سبب، کیونکہ، اس لیے کہ،کی جگہ۔
"ہم نے یہ تمام ہدایات نہایت غور سے پڑھیں اور نوٹ کر لیں کہ نہایت اہم تھیں"
( ١٩٨١ء، دھوپ کنارا، ٢٠ )
٧ - "بلکہ" کے معنی میں۔
ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا تیرا آغاز اور تیرا انجام
( ١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٣٢ )
٨ - ربط کے لیے۔
پوچھا کہ سبب کہا کہ قسمت پوچھا کہ طلب کہا قناعت
( ١٨٣٨ء، گلزار نسیم، ١٣ )
٩ - ناگاہ، اچانک، یکایک، فوراً، اسی دم کے معنوں میں۔
"جہاں ہوا کانوں میں گھسی کہ زکام تمہیں آ لیتاہے"
( ١٩٥٩ء، وہمی، ٣٤ )
١٠ - جملۂ معترضہ کی ابتدا میں
کس قدر ہرزہ سراہوں کی عیاذًا باللہ یک قلم خارج آداب وقار و تمکیں
( ١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٣٤ )
١١ - کسی بات کا نتیجہ ظاہر کرنے کے لیے۔
"جہاں بد گمانی اور بد خیالی پیدا ہوئی کہ دوستی دشمنی سے بدل گئی"
( ١٩٤٠ء، حکایات رومی(ترجمہ) ٣١:٢ )
١٢ - [ قواعد ] صلہ کے طور پر۔
حضوری نگاہوں کو دیدار سے تھی کھلا تھا وہ پردہ کہ جو درمیان تھا
( ١٨٤٦ء، کلیات آتش، ٢٤٣ )
١٣ - برائے تقابل( دو چیزوں کی صفات وغیرہ میں)۔
معلوم ہو چکا ہے دنیا کا راز پھر بھی ہم ہیں کہ ست غفلت، دل ہے کہ بے خبر ہے
( ١٩١٩ء، انجم کدہ، ١٦ )
١٤ - مبادا، کہیں ایسا نہ ہو کے معنی میں۔
"اس بات کا خیال رکھنا کہ سموسے بھاری بھاری کچلوندے نہ ہوں"
( ١٩٥٦ء، افشان، ٥٥ )
١٥ - جب،جس وقت( اب کے بالمقابل)
ہمیشہ ٹال دیا تم نے حال دل نہ سنا اب آئے سننے کہ طاقت مری زباں میں نہیںحو:١٨٦ء، دیوان سخن، ١٦٢
١٦ - برائے اظہار مقصد، تا کہ کے معنی میں۔
"میں نے ٹوپی اٹھا کر اس طرح سلام کیا کہ. دونوں خوش ہو گئے"
( ١٩٧٧ء، کرشن چندر، طلسم خیال )
١٧ - برائے تاکید، "پھر بھی"، 'بھی' کے معنی میں۔
بے خبر ہے دلوں سے دور زماں ساز ٹوٹے ہیں رقص ہے کہ رواں
( ١٩٥٨، دیوان غالب، ٨٨ )
١٨ - جس کے سبب، جس کے باعث، جس کی وجہ سے، چنانچہ کی جگہ
فیض خلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا بوئے گل سے نفس باد صبا عطر آ گئیں
( ١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٣٤ )
١٩ - مرکب کلمے میں بطور جزو آخربس، بل، جب، جو، جوں، کیوں وغیرہ کے ساتھ ۔
"ان کو یہ سمجھانا ہو گا کہ دام اقبالہ، چونکہ دم تحریر ہمارا کوئی گواہ یا حمایتی . موجود نہیں تھا"
( ١٩٨٨ء تبسم زیر لب، ١٤١ )