مدعی

( مُدَّعی )
{ مُد + دَعی }
( عربی )

تفصیلات


دعو  دعَویٰ  مُدَّعی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٦٢ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : مُدَّعِیان [مُد + دَعی + یان]
جمع غیر ندائی   : مُدَّعیّوں [مُد + دَعی + یوں (و مجہول)]
١ - [ قانون ]  عدالت میں دعویٰ دائر کرنے والا، نالش کرنے والا، مستغیث، دادخواہ، فریادی۔
"عدالت سے باہر مدعی کو ذاتی طور پر کچھ رقم دے کر مقدمے کو خارج کر دیا"      ( ١٩٩٨ء، قومی زبان، کراچی، اپریل، ٢٨ )
٢ - جھوٹا دعویٰ کرنے والا، جھوٹا دعوے دار۔
 جس سے کہ ظہور ہو کرامت کا بقصد وہ شخص ہے مدعی یقین کر بخدا      ( ١٨٣٩ء، مکاشفات الاسرار، ٤٤۔ )
٣ - کسی بات کا دعویٰ کرنے والا، دعوے دار، دعویٰ رکھنے والا۔
"زندگی کی تاریک رات کو انسانی کوشش کے چراغ سے روشن رکھنے کے مدعی ہیں"      ( ١٩٨٩ء، متوازی نقوش، ٨٩۔ )
٤ - [ مجازا ]  دشمن، عدو، بدخواہ، مخالف۔
"اب اس کے یہ ساتھی اس کے ہمدم نہیں، اس کے مدعی تھے"      ( ١٩٨٩ء، مصروف عورت، ١٢۔ )
٥ - رقیب، حریف۔
 کیوں مدعی سے چارہ طلب داغ ہو گیا کیا جانے ایسے شخص کو یہ کس نے دی صلاح      ( ١٨٩٢ء، مہتاب داغ، ٦٧۔ )
  • حَرِیْف
  • رَقِیْب