نسل

( نَسَل )
{ نَسْل }
( عربی )

تفصیلات


عربی سے اسم جامد ہے۔ عربی سے من و عن اردو داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : نَسْلیں [نَس + لیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : نَسْلوں [نَس + لوں (و مجہول)]
١ - آدمی یا حیوان کی آل اولاد، بال بچے، خاندان، نژاد، ذریت۔
 ہونے کو ہے اب نسل ہی صّیاد کی غارت اے مرغِ گرفتار مبارک یہ بشارت    ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٦٩ )
٢ - [ نباتیات ] حیوانا، نباتات وغیرہ کا خاندان یا ذات۔
"آم خواہ کسی بھی نسل کا ہو آم ہی کہلاتا ہے۔"    ( ١٩٩٣ء، افکار، کراچی، ستمبر، ٥٨ )
٣ - پیڑھی، بزرگوں یا اولاد کا سلسلہ۔
"ایک نسل کے بعد دوسری نسل انتقال کے لیے بات بات پر جھگڑے ہوتے۔"      ( ١٩٨٨ء، انبیائے قرآن، ٣٦٢ )
٤ - [ حیوانیات ]  حیوانات میں ایک ہی نوع یا نسل سے تعلق رکھنے والے۔
"پالتوں حیوانات چاہے وہ زراعت کے لیے ہوں یا چاہے نمائشی ان سب کو پیڑھی بانس کہتے ہیں۔"      ( ١٩٧١ء، جینیات، ٨٢١ )
٥ - ذات، قبیلہ، قوم۔
"تو ہماری نسل کا آدمی ہے اپنی طرف آ۔"      ( ١٩٩٨ء، ارمغان حالی، جمیل الدین عالی، فن اور شخصیت، ٥٤٧ )
٦ - اصل، تخم۔ (جامع اللغات)۔
  • A boat;  a ship
  • vessel;  (Prob. through the Persian) anything long and hollow;  a pipe
  • tube;  a trough