باد فروش

( بادْ فَروش )
{ باد + فَروش (واؤ مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان کے اسم باد کے ساتھ مصدر فروختن سے مشتق صیغۂ امر 'فروش' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے 'باد فروش' مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٨١٠ء میں میر کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - خوشامدی۔
 مجکو دماغ و صف گل و یاسمین نہیں میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں    ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٦١٤ )
٢ - بھاٹ، بھٹی کرنے والا۔
'یہ قوم جس کا نام - فارسی میں بادفروش ہندی میں بھاٹ ہے، رؤسا اور امرا کی بھٹئ کرنا اس کا پیشہ ہے۔"    ( ١٩٣٩ء، افسانۂ پدمنی، ١٢٦ )
٣ - شیخی خورا، رجز خِواں۔
'اس اثنا میں - لشکر میں سے چند باد فروش ایک مقام بلند پر آ کے استادہ ہوئے۔"    ( ١٨٩١ء، بوستان خیال، ٣١٧:٨ )
٤ - یاوہ گو، باتونی۔
'اس پر بھی میں کافر ہوں اور یاران باد فروش وعظ گو مسلمان، کیا انھوں نے خدا کو بھی اپنا ہی سا نابینا مقرر کیا ہے۔"      ( ١٨٧٠ء، مکتوبات سرسید، ٩٣ )