چندا

( چَنْدا )
{ چَن + دا }
( فارسی )

تفصیلات


چند  چَنْدا

فارسی سے ماخوذ صفت 'چند' کے ساتھ 'ا' بطور لاحقہ نسبت لگانے سے 'چندا' بنا۔ اردو میں بطور ١٧٤١ء کو "مخزن نکات" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چَنْدے [چَن + دے]
جمع   : چَنْدے [چَن + دے]
جمع غیر ندائی   : چَنْدوں [چَن + دوں (و مجہول)]
١ - وہ تھوڑی تھوڑی نقدی یا جنس وغیرہ جو کسی خاص کام (بیشتر رفاہی کام) کے لیے مختلف لوگوں سے وصول ہو، امداد، عطیہ۔
 بس مجھی کو رہ گئی تعمیر بت خانہ کی فکر شیخ کی مسجد کو تو لوگوں نے چندا کر دیا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٦ )
٢ - بیمہ کی قسط جو حادثات سے حفاظت کے لیے ادا کی جاتی ہے۔
"اگر ہر مالک مکان سالانہ سو روپیہ کا چندہ ادا کرے تو آگ لگنے سے ایک مکان کو جو نقصان پہنچتا ہے اس کی پابجائی ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٦٤ء، بیمۂ حیات، ٢١ )
٣ - کسی اخبار یا رسالے کا سالانہ زرخرید یا ماہانہ سہ ماہی یا ششماہی قیمت۔
"چندہ سالانہ پاکستان میں ٥٠ روپے۔"      ( ١٩٨٥ء، افکار، کراچی، ١ )
٤ - وہ رقم جو کسی انجمن، سوسائٹی کو اس کے ممبروں یا معاونوں کی طرف سے مقررہ اوقات پر دی جاتی ہے۔ (شبد ساگر)۔
٥ - دان، نذر، محصول، مالگزاری، محکمۂ پولیس میں گھوڑوں کے لیے روپیہ۔ (پلیٹس، جامع اللغات)۔