تودہ

( تَودَہ )
{ تَو (و لین) + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے دخیل کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم اور شاذ بطور صفت استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٧٣٩ء کو "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - بہت زیادہ، بکثرت، ڈھیروں۔
"جب گھر میں تودہ مرچیں ہیں تو اور کیوں خریدی جائیں۔"      ( ١٨٨٨ء، فرہنگ آصفیہ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : تَودے [تَو (و لین) + دے]
جمع   : تَودے [تَو (و لین) + دے]
جمع غیر ندائی   : تَودوں [تَو (و لین) + دوں (و مجہول)]
١ - ڈھیر، انبار، اٹم۔
 جس نے یہ بات سنی آئی بس اسکی خواری ڈال دی تودہ باروت میں اک چنگاری      ( ١٨٧٨ء، بحر (شعلہ حوالہ، ٢٨٥:١ )
٢ - مٹی کا ٹیلا یا کچی دیوار جس پر تیرانداز تیروں کی مشق کرتے ہیں، نشانہ گاہ، ہدف۔
 نظر سیدھی ہوئی تو اسکی مژگاں نے چڑھائی کی یہ سینہ تودۂ تبروسناں یوں بھی ہے اور یوں بھی      ( ١٩٠٥ء، گفتار بیخود، ٢١٤ )
٣ - مٹی کی منڈیر جو حدود اراضی ظاہر کرنے کو قائم کر دیتے ہیں، مینڈ، ٹھیا۔
"منڈیر یا تودوں پر ایسے دلدلی مقامات میں تخم ریزی کی جاتی ہے۔"      ( ١٩٠٦ء، تربیتِ جنگلات، ٢٣٩ )