تڑپنا

( تَڑَپْنا )
{ تَڑَپ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'تَڑَپ' کے آخر پر اردو لاحقہ مصدر 'نا' لگانے سے بنا اور اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "مینا ستونتی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - پھڑکنا، بیتاب ہونا، بے قرار ہونا، بے چین ہونا۔
"برس چھ مہینے تو ماں بہت تڑپی"      ( ١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ٣ )
٢ - لوٹنا، تلملانا، پھڑپھڑانا، اُڑنے کی کوشش کرنا، ہاتھ پاؤں مارنا۔
"عمر ہرچند تڑپا پھڑکا مگر ظلمانہ نہ کچھ اس کا کہنا قبول نہ کیا۔"      ( ١٩٠١ء، طلسمِ نوخیزی جمشیدی، ١٢٩:٢ )
٣ - (دل وغیرہ کے ساتھ) زور زور سے دھڑکنا۔
 رہ رہ کے دل تفپتا ہے پہلو میں شام سے تھم تھم کے آرہا ہے مزا اضطراب کا      ( ١٨٩٧ء، دیوان مائل، ٥١ )
٤ - اچھلنا، کودنا، جست بھرنا۔
"سیاہ گوش میں بلا کی پھرتی تھی اس کے سامنے کبوتر چھوڑا جاتا تو پندرہ بیس گز تڑپ کے پکڑ لیتا۔"      ( ١٨٨٧ء، جانِ عالم، ٤٣ )
٥ - حیرت سے بے اختیار ہو جانا، بے قرار ہو کر تعریف کرنا۔
 بجلی چمک کے چھپ گئی یارا تڑپ گیا جنگل میں یوں اڑا کہ چکارا تڑپ گیا      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٥٩:١ )
٦ - [ مجازا ]  اظہار کے لیے بے تاب ہونا، بے چین اور بے قرار ہونا۔
 روحانیت کے نغمے لب پر تڑپ رہے ہیں ملک ابد کی جانب سب کو بلا رہی ہے      ( ١٩٤١ء، صبح بہار، ١٧ )
٧ - (بجلی کا بجلی کی طرح) چمکنا۔
 تڑپتا ہوا جگمگاتا ہوا شعاعوں کا جو بن دکھاتا ہوا      ( ١٩٢١ء، کلیاتِ اکبر، ٢٩٨ )