اشکال

( اِشْکال )
{ اِش + کال }
( عربی )

تفصیلات


شکل  اِشْکال

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال سے مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو 'سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - مشکل، دشوار۔
 اک جان اور دو قالب ہوں میں اور فاطمہ کا لال آقا سے جدائی پس مردن بھی ہے اشکال      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٧٥:٣ )
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع   : اِشْکالات [اِش + کا + لات]
جمع غیر ندائی   : اِشْکالوں [اِش + کا + لوں (و مجہول)]
١ - دقت، دشواری۔
'اشکال غیر مانو میں لفظوں سے اتنا نہیں پیدا ہوتا جتنا پیچیدہ اور مغلق بیان سے۔"      ( ١٩٣٨ء، خطبات عبدالحق، ١٦١ )
٢ - مشکل یا دشوار ہونا۔
'مثنوی کا اشکال اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابتدا سے انتہا تک مشکل سے تیس چالیس مثنوی گو ایسے نکلیں گے جو شہرت کے دربار میں باریاب ہوئے ہوں۔"      ( ١٩٠٤ء، مقالات شروانی، ٧٨ )
٣ - ایراد، اعتراض، نکتہ چینی۔
'مجھ کو اس اشکال کا جواب نہیں معلوم ہوا۔"    ( ١٩١١ء، سیرۃ النبیۖ، ٧٣:١ )
٤ - (معنی یا مفہوم میں) اشتباہ، ابہام۔
'تعجب ہے کہ فاضل براون کی دقیق نظر اس تاریخی اشکال پر کیوں نہیں پڑی۔"    ( ١٩٣٣ء، خیام، ٤٨ )