عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
١ - بہت غیرتمند، بڑی غیرت والا، اپنی عزت کا پاس لحاظ کرنے والا۔
"گھوڑا ایک ایسے غیور اور باحمیت شخص کی طرح . اپنی بے بسی کی حالت میں ذراسی سبکی کو انتہائی ذلت سمجھ کر بگڑ جاتا ہے۔"
( ١٩٨٦ء، قومی زبان، کراچی، فروری، ٥٢ )
٢ - خود دار۔
"انکی طبیعت نہایت غیور اور بے پروا واقع ہوتی تھی صدہا امرائے روزگار نے چاہا کہ یہ درباری پابندی اختیار کریں . مگر پابندی پسند نہ کی۔"
( ١٩٢٨ء، حیات مومن (نگار کراچی، اگست، ١٩٩٠) )
٣ - بہادر، آن پر مرمٹنے والا۔
"اُسے اطلاع دو کہ وہ ایک بہادر اور غیور باپ کی بیٹی کی طرح زرہ بکتر اور اسلحہ سے لیس ہو کر تیار ہو جائے۔"
( ١٩٨٩ء، افکار، کراچی، نومبر، ٥٢ )
٤ - بہت رشک کرنے والا۔
او حسن بہت غیور ہے تو نزدیک بھی ہو تو دور ہے تو
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، مثنوی حسن، ٢٣ )
٥ - خدا کا ایک صفاتی نام۔
پلائی امر خدائے جلیل نے وہ چیز کہ جسکو جانتا ہے خود وہ قادر و غیور
( ١٨٨٦ء، دیوانِ سخن، ١٥ )
very jealous (in point of love or honour); high-minded; an epithet of the Diety