تلاوت

( تِلاوَت )
{ تِلا + وَت }
( عربی )

تفصیلات


تلء  تِلاوَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : تِلاوَتیں [تِلا + وَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : تِلاوَتوں [تِلا + وَتوں (و مجہول)]
١ - تلاوت کے اصل معنی ہیں کسی چیز کے پیچھے پیچھے لگے آنا (چونکہ .... پڑھنے والا اصل کام .... کے پیچھے چلا جاتا ہے اس لیے اس کا استعمال قرات اور پڑھنے میں ہونے لگا) (ماخوذ: نوراللغات)
٢ - کلامِ الٰہی کی قرات (عموماً) قرآن شریف کا آواز سے پڑھنا۔
"مسلمانوں کو حکم ہوا کہ نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کریں۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٦٩٦:٤ )
٣ - آسمانی صحف و کتب کا پڑھنا یا مطالعہ کرنا۔
"انکے گھر میں صحفِ انبیاء اور تورات کی تلاوت کا بڑا چرچا تھا۔"      ( ١٨٨٥ء، محصنات، ١٨٠ )
٤ - پڑھنا، مطالعہ کرنا۔
"اس شب زندہ داری میں اخبار کی تلاوت کے سوا اور کوئی شغل نہیں۔"      ( ١٩٣٣ء، ضمیمہ اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٨، ٥:٣ )
٥ - [ مجازا ]  ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا، بغور دیکھنا، احترام کی نظر سے دیکھنا۔
 سندرتُج رخ کے مصحف کا سدامُج کو تلاوت بس شرن کہتا ہوں تج بھون کوں سو ہے مجھ کوں عبادت بس      ( ١٦٧٩ء، دیوان شاہ سلطان ثانی، ٤ (ب) )
  • Reading (particularly of Qor'an);  meditation