بادۂ ناب

( بادَۂِ ناب )
{ با + دا + اے + ناب }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'بادہ' کے آخر پر ہمزہ زائد لگا کر کسرۂِ صفت لگانے کے بعد فارسی اسم صفت 'ناب' کے آنے سے 'بادۂ ناب' مرکب توصیفی بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٧٨ء میں "گلزار داغ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - خالص شراب، کھری شراب۔
 ہر تکدر کو طبیعت سے مٹا دے ساقی بادۂ ناب کا اک جام پلا دے ساقی      ( ١٩٦٨ء، قمرجلالوی، مرثیہ، ٢ )