مور[2]

( مور[2] )
{ مور (و مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی اور بدلی ہوئی ساخت کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : مورْنی [مور (و مجہول) + نی]
جمع غیر ندائی   : موروں [مو (و مجہول) + روں (و مجہول)]
١ - ایک نیلے، پیلے، ہرے اور سنہرے خوبصورت پروں والا پرندہ جو مرغ کے برابر اور اس سے قدرے لمبا اور سریلی آواز کا ہوتا ہے، طاؤس۔
"مور تو اپنی مرضی سے اپنے لیے اپنی مورنی کے لیے . رقص کرتا ہے۔"      ( ١٩٩٨ء، کہانی مجھے لکھتی ہے، ٢٠٣ )
٢ - [ مجازا ]  چور کے گھر چوری کرنے والا، چور کا چور۔ (فرہنگِ آصفیہ)
٣ - ایک آتش بازی جس کو شتابہ دکھانے کے بعد رنگ برنگی چنگاریاں کی دم کے پنکھے کی شکل بنا دیتی ہیں۔
 یہ دیں گے آگ کا دانہ جب اپنے موروں کو تو آ کے ہوویں طاؤس خلد ان پہ نثار      ( ١٨٥٤ء، دیوانِ ذوق، ٢٨ )
٤ - [ موسیقی ]  ایک قسم کا گیت جو سارنگی کے ساتھ گانے میں بہت پُر تاثیر ہوتا ہے۔
"مور بہت ہی سادہ قسم کا گیت ہے جو سازندہ کے ساتھ گانے سے بہت پُراثر ہوتا ہے۔"      ( ١٩٦١ء، ہماری موسیقی، ١٠٩ )