مہربان

( مِہْربان )
{ مِہْر (کسرہ م مجہول) + بان }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'مہر' کے بعد فارسی ہی سے ماخوذ لاحقۂ فاعلی 'بان' لانے سے بنا۔ اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٧٢ء کو "کلیات شاہی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع غیر ندائی   : مِہْربانوں [مِہْر (کسرہ م مجہول) + با + نوں (و مجہول)]
١ - محبت یا شفقت کرنے والا، ہمدردی سے پیش آنے والا، شفیق، رحم دل، حلیم، رفیق
"نہیں بیٹی وہ نہایت منصف اور مہربان ہے۔"      ( ١٩٩٢ء، افکار، کراچی، جون، ٤٦ )
٢ - عنایت، توجہ، کرم یا نوازش کرنے والا، کریم۔
"تاکہ اسلم اس پر مہربان ہو، اسے زیادہ حصے کا حقدار بنائے۔"      ( ١٩٩٠ء، پاؤں کی زنجیر، ٥٧ )
٣ - دوستوں اور بزرگوں کے القاب کا جزو۔
"گورنمنٹ ہند اور لوکل سیلف گورنمنٹ سے ان کو خاص بسیار مہرباں دوستاں لکھا جاتا تھا۔"      ( ١٨٩٧ء، یادگار غالب، ١٩ )