تہمت

( تُہْمَت )
{ تُہ + مَت }
( عربی )

تفصیلات


تھم  تُہْمَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٨٤ء کو "رضوان شاہ و روح افزا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : تُہْمَتیں [تُہ + مَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : تُہْمَتوں [تُہ + مَتوں (و مجہول)]
١ - اتہام، بہتان۔
"کیا تو نے میرے شہزادے کو قتل نہیں کیا . ہرگز نہیں یہ جھوٹی تہمت ہے۔"      ( ١٩١٤ء، راج دلاری، ١٣٣ )
٢ - الزام
"بے انتظامی کی تہمت، غفلت کی بدنامی، واجد علی شاہ کے سر پر دھر دی تھی۔"      ( ١٨٩٠ء، فسانۂ دلفریب، ٤ )