آب پاش

( آب پاش )
{ آب + پاش }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'آب' کے ساتھ فارسی مصدر 'پاشیدن' سے صیغہ امر 'پاش' لگا کر مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے اور ١٨٧٢ء کو "تاج الاقبال تاریخ ریاست بھوپال" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - [ زراعت ]  نہری پانی سے سینچا ہوا۔
"ہمارے صوبہ کی آبپاش زمینوں میں گندم کے لیے ان کھادوں کے کل استعمال کا اوسط علی الترتیب صرف ٤ پونڈ اور ٥ پونڈ. فی ایکڑ تھا۔"      ( ١٩٧٢ء، پندرہ روزہ، زراعت نامہ، لاہور، اگست، ٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - سقّا، چھڑکاؤ کرنے والا۔
 کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر فرزند فاطمہ پر نہ تھا سایۂ شجر      ( ١٨٧٣ء، انیس، مراثی، ٣٥٣:١ )
٢ - پودوں اور نیٹوں وغیرہ کو سیراب کرنے والا شخص۔
"باغباں بیلچہ دار مزدور آب پاش وغیرہ نوکران باغ کل اوس کے تابع رہتے ہیں۔"      ( ١٨٧٢ء، تاج الاقبال تاریخ ریاست بھوپال، ٣، ٧٠ )
٣ - وہ ظرف جس سے پانی چھڑکا جائے، فوارہ، جھارا، ہزارا۔
"جب پانی شامل کرنا ہو تو ایک معمولی آبپاش (جھارا) کام میں لانا چاہیے۔"      ( ١٩٤٤ء، مٹی کا کام، ٩٩ )