آب دار

( آب دار )
{ آب + دار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'آب' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے مشتق صیغہ امر 'دار' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سیف الملوک و بدیع الجمال" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - چمکیلا، درخشاں؛ مجلا، مصفا۔
 سرا پردۂ چرخ ابر بہار یہ جھالر ہے مقیش کی آبدار      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٣٥٥ )
٢ - صاف و شفاف، بے داغ۔
"(کپڑے) جتنے اجلے اور صاف جائیں گے، اتنے ہی اچھے اور آبدار دھل کر آئیں گے۔"    ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٥٧ )
٣ - دلکش، پررونق، جو آنکھوں کو بھلا لگے۔
"جتنی ہلدی کم ہوگی اتنا ہی سالن آبدار ہوگا۔"    ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٥٧ )
٤ - ترو تازہ شاداب (اکثر شعر میں بطور ایہام)۔
 تر و خشک جہاں میں خوش ہیں فقط داغ اور اشک آبدار سے ہم      ( ١٨٨٤ء، مرزا انس، دیوان (قلمی نسخہ)،٢١ )
٥ - تیز دھار والا، سان پر چڑھایا ہوا (آہنی ہتھیار)۔
"جمن نے مچان پر سے ایک آبدار چھری اٹھائی۔"      ( ١٩١٢ء، شہید مغرب، ٦٠ )
٦ - لطیف، نفیس، عمدہ۔
"دربار کی ہمت افزائیاں کہاں میسر ہو سکتی ہیں کہ وہ پھر آبدار شعر کہہ سکیں۔"    ( ١٩٥٩ء، نقش آخر (ڈراما)، ٩٤ )
٧ - شایستہ، شتہ۔
 جن کا دل پاکیزہ ہے جن کا چلن ہے آبدار وہ عزیزوں کی نگاہوں سے اتر سکتے نہیں    ( ١٩٢٥ء، افکار سلیم، ١١١ )
٨ - (صید و شکار) پانی سے دھلا ہوا گوشت۔
"دوسرے وقت شام کو بنو اخت چار گھنٹے کے طلب کر کے طعمۂ آبدار یعنی گوشت پانی سے دھلا ہوا اور ترسیر شکم کھلاوے۔"      ( ١٨٨٣ء، صیدگاہ شوکتی، ٧٣ )
اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث )
١ - بادشاہوں اور امیروں کے مشروبات کا نگراں اور منتظم، پانی پلانے کی خدمت پر مامور ملازم، سقّا۔
"ایک آبدار ہی تھا جس کو میجر صاحب دوست رکھتے تھے۔"      ( ١٩١٠ء، سپاہی سے صوبہ دار، ٨٨ )
٢ - [ آبپاشی ]  کھیتوں کو نہری پانی دینے کے معاملات کا نگراں، نہر کے پانی کی تقسیم کا منتظم۔
"چیف انجینئر (اری گیشن) سکھر زون نے. حیدر آباد میں آبداروں کا امتحان برائے ١٩٦٢ء منعقد کرانے کی ذمہ داری تفویض کی ہے۔"      ( ١٩٦٧ء، روزنامہ جنگ، کراچی، ١٢ ستمبر، ٧ )
٣ - [ نباتیات ]  ایک گھاس ہے کہ کھجور کے پیڑ کے ریشوں کی طرح ہوتی ہے۔ (خزائن الادویہ، 1:7)۔