صفت ذاتی ( واحد )
١ - چمکیلا، درخشاں؛ مجلا، مصفا۔
سرا پردۂ چرخ ابر بہار یہ جھالر ہے مقیش کی آبدار
( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٣٥٥ )
٢ - صاف و شفاف، بے داغ۔
"(کپڑے) جتنے اجلے اور صاف جائیں گے، اتنے ہی اچھے اور آبدار دھل کر آئیں گے۔"
( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٥٧ )
٣ - دلکش، پررونق، جو آنکھوں کو بھلا لگے۔
"جتنی ہلدی کم ہوگی اتنا ہی سالن آبدار ہوگا۔"
( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٥٧ )
٤ - ترو تازہ شاداب (اکثر شعر میں بطور ایہام)۔
تر و خشک جہاں میں خوش ہیں فقط داغ اور اشک آبدار سے ہم
( ١٨٨٤ء، مرزا انس، دیوان (قلمی نسخہ)،٢١ )
٥ - تیز دھار والا، سان پر چڑھایا ہوا (آہنی ہتھیار)۔
"جمن نے مچان پر سے ایک آبدار چھری اٹھائی۔"
( ١٩١٢ء، شہید مغرب، ٦٠ )
٦ - لطیف، نفیس، عمدہ۔
"دربار کی ہمت افزائیاں کہاں میسر ہو سکتی ہیں کہ وہ پھر آبدار شعر کہہ سکیں۔"
( ١٩٥٩ء، نقش آخر (ڈراما)، ٩٤ )
٧ - شایستہ، شتہ۔
جن کا دل پاکیزہ ہے جن کا چلن ہے آبدار وہ عزیزوں کی نگاہوں سے اتر سکتے نہیں
( ١٩٢٥ء، افکار سلیم، ١١١ )
٨ - (صید و شکار) پانی سے دھلا ہوا گوشت۔
"دوسرے وقت شام کو بنو اخت چار گھنٹے کے طلب کر کے طعمۂ آبدار یعنی گوشت پانی سے دھلا ہوا اور ترسیر شکم کھلاوے۔"
( ١٨٨٣ء، صیدگاہ شوکتی، ٧٣ )