آب و تاب

( آب و تاب )
{ آ + بو (و مجہول) + تاب }

تفصیلات


فارسی سے ماخوذ اسم 'آب' کے ساتھ 'و' بطور حرف عطف لگا کر فارسی اسم 'تاب' لگانے سے مرکب عطفی 'آب و تاب' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - ایک حصہ آکسیجن اور دو حصے ہائیڈروجن سے مرکب سیال (جسے بے مزہ اور بے رنگ کیا جاتا ہے، پینے کے علاوہ اور بہت سی ضروریات میں استعمال ہوتا ہے، پیاس بجھانے کے لیے عموماً دریا ندی یا کنویں وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے)، پانی۔
"پینے کے قطرے نرم و نازک رخساروں پر پیشانی کی طرف سے بہتے ہوئے آ رہے تھے اور موتی بن بن کر آب و تاب سے چمک رہے تھے۔"      ( ١٩١٢ء، شیہد مغرب، ٥ )
٢ - شان و شکوہ، حسن و خوبی۔
"چاہتا ہوں تو بس یہی کہ جیسی کتاب ہے ویسی ہی آب و تاب سے چھپے بھی۔"      ( ١٩١٧ء، مجموعۂ نظم بے نظیر دیباچہ، ٥ )
٣ - رونق، تازگی، شادابی۔
 اے وادی "لولاب" حسیں دختر کوہ ہے تجھ سے دوبالا آب و تاب کشمیر      ( ١٩٤٧ء، لالہ و گل، ٩٦ )