آب آب

( آب آب )
{ آب + آب }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'آب' کی تکرار سے مرکب 'آب آب' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨٣٦ء کو "ریاض البحر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - پسینے میں نہایا ہوا، عرق آلود (شرم و ندامت سے)؛ شرمندہ۔
 جو روؤں تو وہ کہے گا اہل پڑا کم ظرف نہیں تو میں ابھی بادل کو آب آب کروں      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ٩٤ )
٢ - (درد و غم یا شدت حرارت سے) پانی پانی، گھلا ہوا۔
 اف رے جوش گرمی نظارۂ طاقت گداز دل تمام آنکھوں میں ہو کر آب آب آہی گیا      ( ١٩٥٣ء، دیوان صفی، ٢٥ )
٣ - (غم خواری یا ہمدردی سے) پگھلا ہوا، نرم۔
 دل ہوا آہن کا میری بے کسی پر آب آب تیغ جب آئی گلے تک موج دریا ہوگئی      ( ١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ٣٨٣:٣ )