افشردہ

( اَفْشُرْدَہ )
{ اَف + شُر + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان کے مصدر 'افشرون' کا صیغہ حالیہ تمام ہے۔ اردو میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٥٤ء کو "کلیاتِ ظفر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - کسی چیز سے نچوڑا ہوا، پانی، عرق، شربت۔
"حضرت عیسٰی اپنی زندگی کی آخری شب میں اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ کر. انگور کا افشردہ پیتے ہیں۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٧١٩:٤ )
٢ - کھٹ مٹھا شربت، وہ شربت جس میں لیموں نچوڑ کر پیتے ہیں۔ (عزیز اللغات، 33)
"شیر، فالودہ اور افشردہ ہر وقت تیار۔"      ( ١٩٢٣ء، اودھ پنچ، ضمیمہ، ٦٥:٣٣،١٩ )
  • عَرْق
  • سَت