اقبالی

( اِقْبالی )
{ اِق + با + لی }
( عربی )

تفصیلات


قبل  اِقْبال  اِقْبالی

عربی زبان سے مشتق اسم علم 'اقبال' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'اقبالی' بنا۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے سب سے پہلے "ماہنامہ حسن" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : اِقْبالِیوں [اِق + با + لِیوں (واؤ مجہول)]
١ - معترف، اقراری۔
 گیا ہے دل وہی درد نگاہ کیا ہوا اگر چور اقبالی نہیں      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ٣٩ )
٢ - اقرار و اعتراف پر مشتمل (تقریر یا تحریر)۔
"اقبالی اظہار قلم بند ہونے کے بعد۔"      ( ١٩٢٤ء، قوانین پولیس حیدراآباد، ٢٥٣ )
٣ - وہ اسکالر جس نے شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کے افکار و تصانیف کا خصوصی اور گہرا مطالعہ کیا ہو۔
"سندھ یونیورسٹی کا ذخیرۂ کتب ناکافی ثابت ہوا تو اس میں بھی دو اقبالیوں نے امداد کی۔"      ( ١٩٥٥ء، اقبالیات کا تنقیدی جائزہ، گزارش، )