اصطلاح

( اِصْطِلاح )
{ اِص + طِلاح (کسرہ ط مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


صلح  صُلْح  اِصْطِلاح

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
١ - وہ لفظ جس کے کوئی خاص معنی کسی علم یا فن وغیرہ کے ماہرین نے یا کسی جماعت نے مقرر کر لیے ہوں۔
"علم کلام ایجاد ہوا تو اس میں فلسفے کی بیسیوں اصطلاحیں شامل ہو گئیں۔"      ( ١٩٠٢ء، علم الکلام، ٣٣:١ )
٢ - روزمرہ، بول چال۔
 واعظ بہشت و بزم حسیناں کو ایک جان تیرا لغت وہ ہے یہ مری اصطلاح ہے      ( ١٩٢٧ء، شاد، میخانۂ الہام، ٣١٨ )
٣ - ایسا لفظ یا رمز کی بات جسے قائل اور مخاطب کے علاوہ دوسرے لوگ نہ سمجھ سکیں۔
 نامہ بر مل رہا ہے غیر کے ساتھ خط میں کچھ اصطلاح کیجیے گا      ( ١٧٩٥ء، قائم، کلیات (ق)، ١٧ )
  • phrase
  • phraseology
  • idiom
  • usage;  accepted signification
  • conventional meaning;  conventional term
  • technical term