آب شار

( آب شار )
{ آب + شار }
( فارسی )

تفصیلات


دو فارسی اسما 'آب' اور 'شار' کا مرکب ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث )
١ - قدرتی پانی کی موٹی دھار جو زور شور کے ساتھ پہاڑ وغیرہ سے نیچے کی طرف گرتی ہے، پانی کی چادر، جھرنا۔
 ہے موج زن فضا میں اک آبشار سیمیں یا ملکۂ پرستاں موتی لٹا رہی ہے      ( ١٩٤١ء، صبح بہار، ١٥ )
٢ - پتھر یا دھات کا چھلنی نما فوارہ۔
"شمالی دیوار کے وسط میں ایک خوش قطع آبشار ہے جس کا ڈھلان ایک سنگ مرمر کے حوض میں ہے۔"      ( ١٩٢٠ء، رہنمائے قلعۂ دہلی، ٥٤ )
٣ - [ مجازا ]  پانی کے قطروں کی لڑی، پانی کا پھوار۔
 آبشار اشک کے کام آتے ہیں عریانی میں کہ اڑھا دیتے اکثر مجھے چادر آنسو      ( ١٨٦٥ء، نسیم دہلوی، دیوان، ١٨٨ )