آب شبینہ

( آبِ شَبِیْنَہ )
{ آ + بے + شَبی + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


دو فارسی اسما 'آب' اور 'شبینہ' کے درمیان کسرۂ صفت لگنے سے مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٨٧٢ء کو "رسالہ سالوتر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
١ - رات کا باسی پانی۔
"کپڑے کی گدی آب شبینہ میں تر کرکے باندھنا۔"      ( ١٨٧٢ء، رسالہ سالوتر، ١٠٩:٢ )