آب کاری

( آب کاری )
{ آب + کا + ری }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی مرکب 'آب کار' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "مثنوی ہشت گلزار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث )
١ - آبکار کا پیشہ یا کام۔     
 ترساں رہے محتسب تو لرزاں قاضی ہر رند کو حکم آب کاری ہو جائے     رجوع کریں:   ( ١٩٢٥ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٠، ٣:١٠ )
٢ - منشیات کا محصول؛ نیز محصول لگانے اور وصول کرنے اور اس سے متعلق دیگر انتظامی امور کی دیکھ بھال اور نگرانی کا محکمہ (فرہنگ آصفیہ، 89:1)۔
 سزا غیب نے مے سے نفرت کی دی ہے کہ واعظ ہے داروغۂ آب کاری      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٢٨٠ )