بار بردار

( بار بَرْدار )
{ بار + بَر + دار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'بار' کے ساتھ مصدر برداشتن سے مشتق صیغۂ امر 'بردار' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے 'باربردار' مرکب توصیفی بنا۔ اردو میں ١٧٨٠ء میں سودا کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - بوجھ لادنے یا کھینچنے والا جانور، جہاز یا کوئی بھی نقل و حمل کا ذریعہ؛ قلی۔
 باربردار کہاں مایۂ الفت ہے بہت ابھی مزدور پکڑوائیے بیگاروں سے      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، واجد علی شاہ، ٦٥٩ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - محنتی، جاں فشانی کرنے والا۔
"خواجہ جیسا امارہ نویس - خردہ گیر، نکتہ سنج، باربردار - کم تر پایا جاتا ہے۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ١٣٢:٥ )