بار آور

( بار آوَر )
{ بار + آ + وَر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'بار' کے ساتھ مصدر آوردن سے مشتق صیغۂ امر 'آور' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے 'بار آور' مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٨٧٧ء میں "توبۃ النصوح" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - پھل دینے والا، سرسبز۔
"اس شجربار آور کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیا۔"      ( ١٩٤٣ء، سیدہ کی بیٹی، ١٠٦ )
٢ - نتیجہ خیز، کامیاب۔
"وہ سانولے اور کالے رنگ کے انسان ان ملکوں میں رہتے ہیں جہاں ہماری تجارت بارآور ہوتی ہے۔"      ( ١٩٢٢ء، نقش فرنگ، ١٤١ )