تجزی

( تَجَزّی )
{ تَجَز + زی }
( عربی )

تفصیلات


جزء  جُز  تَجَزّی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے ١٨٨٧ء کو "ترجمہ فصوص الحکم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَجَزِّیاں [تَجَز + زِیاں]
١ - فرد فرد ہونے ٹکڑے ٹکڑے کرنے یا بٹ جانے کا عمل، جزو جزو ہو جانے کی حالت۔
"عالم ہر شے کی تجزی کرتا ہے اور ہر شے کی اصلیت کو پہنچنا چاہتا ہے۔"      ( ١٩١٣ء، تمدن ہند، ٣٩٧ )
٢ - افتراق، انتشار، عدم اتحاد۔
 ہمیں جس چیز نے کھویا وہ تفریق و تجزی تھی یہ وہ شے ہے کہ جو بربادی مسلم کے درپے ہے      ( ١٩١٤ء، کلیات شبلی، ٨٧ )
٣ - کسی مرکب کے ہر جزو کو الگ الگ کرنے کا عمل۔
"اہل یورپ نے اشیائے عالم کی تجزی کرکے یہ طے کیا یہ شمار میں چونسٹھ ہیں۔"      ( ١٩٠٩ء، تاریخ تمدن، ١٨٩ )