تجاہل عارفانہ

( تَجاہُلِ عارِفانَہ )
{ تَجا + ہُلے + عا + رِفا + نَہ }
( عربی )

تفصیلات


عربی اسم 'تجاہل' کے ساتھ کسرہ صفت لگانے کے بعد عربی اسم فاعل 'عارف' کے ساتھ اردو قاعدے کے مطابق 'انہ' بطور لاحقہ کیفیت لگانے سے 'عارفانہ' بنا دونوں کو ملا کر مرکب توصیفی بنا اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٨٠ء کو "فسانہ آزار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - جان بوجھ کر انجان بننا، جاننے بوجھنے کے باوجود یہ ظاہر کرنا کہ ہم کچھ جانتے ہی نہیں۔
"واہ استاد اس تجاہل عارفانہ کے صدقے اجی ہم وہ ہیں جس کے ساتھ تم . پیا کرتے تھے۔"      ( ١٨٨٠ء، فسانہ آزار، ٢٣٩:١ )
٢ - [ علم بدیع ]  کسی معلوم شدہ بات کو نامعلوم کی جگہ دینے کا عمل یا کسی کو جانتے ہوئے انجان بننے کی حالت۔
"ان کی چالاکیوں سے واقف ہوتے ہوئے بھی تجاہل عارفانہ سے کام لیتے۔"      ( ١٩٥٦ء، حکمائے اسلام، ٣٣٨:٢ )
  • بنَاوَٹی بے خَبَری
  • مَصْنُوعی نا واقِفِیَّت