آبرو دار

( آبْرُو دار )
{ آب + رُو + دار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'آبرو' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے صیغہ امر 'دار' لگا کر مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨٦١ء کو "الف لیلہ نومنظوم" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - باعزت، شریف، رتبے والا۔
"کسی امیر کی امارت آبرو دار کی آبرو بادشاہ کے ساتھ سے محفوظ نہ رہی۔"      ( ١٩٥١ء، تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، ٤١٨:١ )
٢ - باحیا، غیرت مند۔
 بات کا زخم کوئی بھرتا ہے آبرو دار اس سے مرتا ہے      ( ١٨٨٢ء، فریاد داغ، ١٢٢ )