آب و رنگ

( آب و رَنْگ )
{ آ + بو (و مجہول) + رَنْگ (ن غنہ) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی میں اسم 'آب' کے بعد 'و' بطور حرف عطف لگا کر فارسی اسم 'رنگ' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨٠٣ء کو "مراثی نسیم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
١ - ظاہری رنگ روپ، شکل و صورت، خط و خال۔
"ان (رحجانات) میں ملوکیت یا جمہوریت کی روح کارفرما ہے، ان کا آب و رنگ جاگیر داری کے تہذیبی ایوان سے مستعار لیا گیا ہے۔"      ( ١٩٦٨ء، مثبت قدریں، ٤٥ )
٢ - جلا، رونق، آب و تاب، زینت، زیبائش۔
 دیا وہ اس نے حکومت میں اپنی آب و رنگ کہ جس کو دیکھ کے نیلگوں فلک بھی دنگ      ( ١٩٢٣ء، فروغ ہستی، ٤٢ )
٣ - تازگی، شادابی، طروات۔
 یہ آب و رنگ یہ سب رنگ و بو ہے پانی سے عروس خاک تری آبرو ہے پانی سے      ( ١٩٧٠ء، مراثی نسیم، ٣٤:٢ )
٤ - لطف، مزہ۔
 جس نے اس دنیا میں آکر ایک دن بھی پی نہ بھنگ اس نے سچ پوچھو تو کیا دیکھا جہاں کا آب و رنگ      ( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ٥٨٤ )