گالا

( گالا )
{ گا + لا }
( فارسی )

تفصیلات


گال  گالا

فارسی سے اردو میں دخیل اسم 'گاں' کے ساتھ 'ا' بطور لاحقہ نسبت و تذکیر لگانے سے 'گالا' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور ١٦٥٧ء کو "گلشنِ عشق" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : گالے [گا + لے]
جمع   : گالے [گا + لے]
جمع غیر ندائی   : گالوں [گا + لوں (و مجہول)]
١ - دھنکی ہوئی صاف روئی کی تھوڑی سی مقدار کا گولا یا پیل۔
"یہ وہ دن ہے جب لوگ پریشان پروانوں کی طرح ہوں گے اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ہوں گے۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٦٨٤:٤ )
٢ - [ کنایۃ ]  نہایت سفید۔
"اس کی کالی زلفیں روئی کے گالوں کی طرح سفید ہو گئیں۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٢ )
٣ - کوئی گولا سی گیلی اور سفید شے۔
"جیسے ٹھنڈے ملک کی کسی مسجد کے دروازے کی محراب میں آسمانی برف کا بڑا سا گالا لٹکا ہو۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالا مکھ، ٢١٩ )
٤ - [ گھوسی ]  دودھ کا چکنا جزو جو دودھ کو ٹھنڈ میں زیادہ دیر رکھے رہنے سے نتھر کر اوپر سطح پر آجاتا ہے۔ یہ ایک قسم کا کچا مکھن ہوتا ہے جس کے نکل جانے سے دودھ پتلا اور ہلکا ہو جاتا ہے، پورا، نینو۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 95:3)۔
  • thick mud;  mud kneaded or prepared for making bricks
  • or pottery
  • or for building or plastering;  name of a ragini or musial mode.