فرقت کا مارا

( فُرقَت کا مارا )
{ فُر + قَت + کا + ما + را }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'فُرقت' کے بعد سنسکرت زُبان سے ماخوذ حرف اضافت 'کا' اور پھر سنسکرت ہی سے ماخوذ مصدر 'مارنا' کا فعل ماضی 'مارا' لگانے سے مرکب توصیفی بنا۔ جو اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے ١٩٠٨ء کو "بانگ درا" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : فُرقَت کے مارے [فُر + قَت + کے + ما + رے]
جمع   : فُرقَت کے مارے [فُر + قَت + کے + ما + رے]
جمع غیر ندائی   : فُرقَت کے ماروں [فُر + قَت + کے + ماروں (و مجہول)]
١ - فُرقت زدَہ، ہجر کا مارا ہوا۔
 صدائے لن ترانی سُن کے اے اقبال میں چپ ہوں تقاضوں کی کہاں طاقت ہے، مجھ فرقت کے مارے میں      ( ١٩٠٨ء، بانگِ درا، ٤٧ )