دبا ہوا

( دَبا ہُوا )
{ دَبا ہُوا }

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اردو مصدر 'دینا' سے مشتق صیغہ ماضی مطلق 'دبا' کے ساتھ 'ہوا' بطور لاحقۂ حالیہ تمام لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٩٤٥ء سے "روح کائنات" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : دَبی ہُوئی [دَبی + ہُو + ای]
واحد غیر ندائی   : دَبے ہُوئے [دَبے + ہُو + اے]
جمع   : دَبے ہُوئے [دَبے + ہُو + اے]
جمع غیر ندائی   : دَبے ہُووؤں [دَبے + ہُو + اوں (و مجہول)]
١ - پوشیدہ، چھپا ہوا۔
"مرحوم کے فیض صحبت نے میرے دبے ہوئے ذوق کو ابھار دیا تھا۔"      ( ١٩٤٥ء، روح کائنات، ٨ )