درپردہ

( دَرپَرْدَہ )
{ دَر + پَر + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'در' کے ساتھ فارسی ہی سے ماخوذ اسم 'پردہ' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز متعلق فعل استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٨٣ء سے "لیلٰی مجنوں، ہوس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - پیٹھ پیچھے، غیاب میں، غائبانہ۔
 جن دعاؤں سے میں پہنچا ہوں حریم ناز تک کیا کہوں در پردہ تھیں کس کی دعائیں میرے ساتھ      ( ١٩٨٦ء، فاران (عروج زیدی)، کراچی، جولائی، ٤٣ )
٢ - خفیہ، پوشیدہ، اشارے یا کنائے میں۔
"ظاہر میں گھی کھچڑی تھا درپردہ کچھ اور یہ منافقت نہ تھی مجبوری تھی۔"      ( ١٩٨٦ء، اوکھے لوگ، ١٢٨ )
٣ - پردے میں چھپا کر، چوری چھپے۔
"یہاں عیسائیت کی ترغیب یا اپنے دین سے بے رغبتی کی تربیت درپردہ ہوتی ہو گی۔"      ( ١٩٨٢ء، مری زندگی فسانہ، ١٦٢ )