بار برداری

( بارْ بَرْداری )
{ بار + بَر + دا + ری }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'بار' کے ساتھ مصدر برداشتن سے مشتق صیغۂ امر "بردار" بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے 'باربردار' مرکب توصیفی بنا اور پھر فارسی قواعد کے مطابق 'ی' بطور لاحقہ کیفیت لگنے سے 'باربرداری' مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٠٩ء میں حیدری کی آرائش محفل میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - سامان اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کام۔
 وہاں ہے ناز برداروں کو حکم بار برداری مگر لکھا ہے جینا میری قسمت میں گدھا ہو کر      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٩٥ )
٢ - چھکڑا وغیرہ جس پر سامان لادا جاتا ہے۔
"بے سامانی کا یہ حال کہ ہتھیار اور بار برداری بقدر ضرورت موجود ہیں۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٠:٢ )
٣ - سامان منتقل کرنے کی اجرت، محنتانہ۔
"وہ صاحب : مفت بار برداری پڑ جاتی میر صاحب کی دل لگی تھی۔"      ( ١٩٠٠ء، ذات شریف، ٤٥ )
  • Means of conveyance
  • carriage
  • transport;  cost of conveyance
  • cart-hire
  • camel-hire;  freight
  • transit charges;  leading
  • cargo