دریا برد

( دَرْیا بُرْد )
{ دَر + یا + بُرْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دریا' کے ساتھ مصدر 'بردن' سے صیغہ امر 'برد' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٧٦ء سے "شرح قانون شہادت" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ایسی زمین جو دریا کے بہاو میں آجائے اور وہاں کاشت نہ ہو سکے۔
"ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بڑی دشواری یہ ہے کہ زمیں ہی دریا برد ہوتی چلی جا رہی ہے۔"    ( ١٩٤٤ء، آدمی اور مشین، ٤٣١ )
٢ - کوئی چیز علاوہ اراضی کے جو دریا کی طغیانی یا سیلاب سے برباد ہو گئی ہو۔
"اگر یہی سلسلہ دو چار دن رہا تو عالم "ہم آب اور ہم" دریا برد۔"    ( ١٩٠٦ء، انتخاب فتنہ، ١٥٣ )
٣ - تباہ، برباد، غائب، گم۔
"اب سے کچھ دیر بعد وہ سارا علاقہ دریا برد ہو جائے گا جس کی ہوا میں ہم نے زندگیاں گزاری ہیں۔"      ( ١٩٨٠ء، وارث، ٤٧٥ )