دست غیب

( دَسْتِ غَیب )
{ دَس + تے + غَیب (ی لین) }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دست' کے بعد کسرۂ اضافت لگا کر عربی زبان سے مشتق اسم 'غیب' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریرا" ١٨٠١ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - عموماً روپیہ پیسا، وہ چیز جو غیب سے بغیر کسی ذریعے کے حاصل ہو۔
"دلی والوں میں یہ بھی مشہور تھا کہ مولانا (عبدالسلام نیازی) کو دست غیب ہے۔"      ( ١٩٦٧ء، بزم خوش نفساں، ٥١ )
٢ - دست غیب کا عمل یا وظیفہ۔
"اب ہم چاہتے ہیں کہ دست غیب یا کیمیا بھی تم کو بتا دیں۔"      ( ١٩٢٩ء، تذکرۂ کاملانِ رامپور، ٩٧ )
٣ - رشوت، ناجائز آمدنی، رشوت کی کمائی (طنزیہ)۔
"کچھ دست غیب کے طالب ہوئے لیکن مایوس ہو کر بالآخر سب کو تھانے پر پکڑ بلایا۔"      ( ١٩٤٠ء، مضامین رشید، ١٣٠ )