دستور العمل

( دَسْتُورُ الْعَمَل )
{ دَس + تُو + رُل (ا غیر ملفوظ) + عَمَل }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دستور' کے بعد 'ا ل' بطور حرف تخصیص لگا کر عربی زبان سے مشتق اسم 'عمل' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٦٥ء سے "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر )
١ - طریقہ کار، طور، عمل، چلن، دستور۔
"انجمن (انجمن پنجاب) کے اس دستور العمل (یعنی مضامین پر بحث و نظر کا دستور) سے شرکائے جلسہ کو بحث میں حصہ لینے . اور صحت مند تنقید کو برداشت کرنے کی ترتبیت ملی۔"      ( ١٩٨٥ء، اردو ادب کی تحریکیں، ٣٧٠ )
٢ - ضابطۂ عمل، ضابطہ قانون، نیز قواعد و ضوابط کا مجموعہ یا اصول کار۔
"اس وقت جب کہ اجتماعی طور پر ہم کسی دستور العمل یا نظریے کی تائید پر آمادہ نہیں ہیں، اس وقت جب کہ . ہمیں چھوٹی چھوٹی منفعتوں کے بجز اور کچھ نظر نہیں آتا، لفظ کا بے اثر اور بے حرمت ہو جانا کوئی بات نہیں ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، ترجمہ: روایت اور فن، ٢٩ )
٣ - آئین، ضابطۂ عمل، لاحقہ عمل۔
"دوسرا مشکل سوال حکومت سے نظام حکومت کا جو دستور العمل تم نے جوائنٹ پارلیمنٹری رپورٹ میں پیش کیا ہے کسی اور نو آبادی میں بھی ایسا مزے دار دستور العمل تھا یا ہے?"      ( ١٩٣٤ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٩، ١٠:٤٢ )