دستاویز

( دَسْتاویز )
{ دَس + تا + ویز (ی مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دست' کے ساتھ مصدر 'آویختن' سے مشتق صیغہ امر 'آویز' کی 'الف' ممدودہ کو 'الف' مقصورہ میں بدل کر 'دست' کے ساتھ ملاکر لکھنے 'دستاویز' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٥٨ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : دَسْتاویزیں [دس + تا + وے + زیں (ی مجہول)]
جمع استثنائی   : دَسْتاویزات [دَس + تا + وے + زات]
جمع غیر ندائی   : دَسْتاویزوں [دس + تا + وے + زوں (و مجہول)]
١ - کوئی اہم تحریر، یاد داشت، اقرار جو آئندہ حوالے کے لیے مفید ہو۔
"تحقیقی مواد کی جگہ سے پرانے تذکروں میں ہندو تاریخ کا تعین نہیں ہو پایا تھا اس لیے شعراء کے ذکر میں تقدیم و تاخیر کا مسلہ پیدا ہوا نئے تذکروں میں ترتیب کی باقاعدگی نے انہیں ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت دے دی ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، قومی زبان، کراچی، جولائی، ٦٤ )
٢ - وہ کاغذ جو دو یا کئی شخصوں کے مابین کسی معاملے میں بطور سند لکھا جائے، تمسک، اقرار نامہ، راضی نامہ۔     
جھوٹی دستاویزیں انہوں نے (وکیل صاحب) بنوائیں اور اب یہ بے حیا . کہتا ہے کہ میں سچ کا ساتھ دیتا ہوں۔"     رجوع کریں:  قانون ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٦٣:٣ )
٣ - ضابطہ، دستور، ہدایت نامہ۔
"اسلام دنیا کے سارے مذاہب کے بعد آنے والا ایک ایسا ضابطہ حیات تھا جو انسانی شعور کی مکمل کی ہوئی دستاویز کو پیش کرتا ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، برش قلم، ١٣٦ )
٤ - وسیلہ، سہارا۔
 عارض والحضٰی و ثیقہ مرا زلف و اللیل میری دستاویز      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٨٧ )
٥ - ثبوت، سند۔
"اس کا (جعفرزٹلی) کلام شمالی ہند میں لسانی ارتقا کی پہلی کڑی اور تہذیبی و تاریخی اعتبار سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، تاریخ ادب اردو،٢، ٩٧:١ )
٦ - نشانی، علامت۔
"الف لیلہ ہماری اجتماعی ذات کی دستاویز ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، علامتوں کا زوال، ١٤٨ )
٧ - وہ چیز جو گرفت میں لے لے یا باندھ دے۔
 طلب جو ں جت شوق انگیز ہوئی لنبی زلف تس دست آویز ہوئی      ( ١٦٥٨ء، گلشن عشق، ١٩٥ )
٨ - [ مجازا ]  کرنسی نوٹ، سرکاری تمسکات۔
"روسی سیاہ کی . پہلی اور جان شکن شکست سے . یورپ کے کاروبار باری لوگوں پر . جو اثر پڑا اس امر سے معلو ہو جاوے گا کہ اس خبر . کے مشتہر ہوتے ہی روسی دستاویزوں کی قیمت بہت ہی گر گئی۔"      ( ١٨٩٣ء، بست سالہ عہد حکومت، ٣٣ )