صبر آزما

( صَبْر آزْما )
{ صَبْر + آز + ما }

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'صبر' کے بعد فارسی مصدر 'آزمودن' کا صیغہ امر 'آزما' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٤٤ء کو "سوانح عمری و سفر نامۂ حیدر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - صبر آزمانے والا، قوت برادشت کا امتحان لینے والا۔
"میں باوجود اپنی کشادہ قلبی کے تمہاری صبر آزما باتوں کا ساتھ نہیں دے سکتی۔"      ( ١٩٨٧ء، اک محشر خیال، ٤٥ )