باریاب

( بارْیاب )
{ بار + یاب }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'بار' کے ساتھ مصدر یافتن سے مشتق صیغۂ امر 'یاب' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے باریاب مرکب توصیفی بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٨١٠ء میں میر کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - رسائی پانے والا، حضوری حاصل کرنے والا، داخل، حاضر۔
"ایک قانون پیشہ - ان کی طرف سے عدالت میں باریاب کیا جائے۔"      ( ١٩١٩ء، غدر دہلی کے افسانے، ١٠:٤ )
٢ - [ مجازا ]  کامیاب، موثر۔
 بتا تو اے شب غم آج دل ہے کیوں بشاش ضرور نالۂ شب گیر باریاب ہوا      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانۂ الہام، ٥٨ )