فہم و تفہیم

( فَہْم و تَفْہِیم )
{ فَہ (فتح ف مجہول) + مو (و مجہول) + تَف + ہِیم }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'فہم' کو حرف عطف 'و' کے ذریعے ثلاثی مرید فیہ کے باب سے مشتق اسم 'تفہیم' کے ساتھ ملانے سے مرکب عطفی بنا جو اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٨٣ء کو "نایاب ہیں ہم" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - سمجھنا، سمجھانا، افہام و تفہیم۔
"ان کی آنکھیں آواز کے زیرو بم اور الفاظ کے فہم و تفہیم کے ساتھ ساتھ متحرک ہو جاتی تھیں۔"      ( ١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ٦١ )