ڈنڈی دار

( ڈَنْڈی دار )
{ ڈَن + ڈی + دار }

تفصیلات


پراکرت سے ماخوذ اسم 'ڈنڈا' کی تصغیر 'ڈنڈی' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے صیغۂ امر 'دار' لگانے سے مرکب 'ڈنڈی دار' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٤٣ء کو "دانہ و دام" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : ڈَنْڈا دار [ڈَن + ڈا + دار]
جمع غیر ندائی   : ڈَنْڈی داروں [ڈَن + ڈی + دا + روں (و مجہول)]
١ - تولنے والا، ڈنڈی تول۔
"چھاؤنی میں مالک . وہاں ڈنڈی دار کے پاس ملاحم ہو جاؤں گا۔"      ( ١٩٤٣ء، دانہ و دام، ١٥٦ )
٢ - ڈنڈی والا، جس میں ڈنڈی ہو، دم دار
"پیالی میں متعدد چھوٹے چھوٹے سبز رنگ کے ڈنڈی دار اجسام پائے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٨٠ء، مبادی حیاتیات، ٥٦٢:٢ )