ڈھورا

( ڈھورا )
{ ڈھو (و مجہول) + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کے اصل لفظ 'ڈھوڑا' سے ماخوذ 'ڈورا' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٦٨ء کو "شعلۂ جوالہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - مٹی کا تودہ جو کسی نالی کے کنارے پر بناتے ہیں، وہ پرانی اور خشک نہر جس میں پانی نہیں آتا ہو، نشیبی جگہ جہاں پانی جمع ہو جائے، دریائے سندھ کا پرانا بہاؤ۔
 ڈھورے پر اڑتا نیرنگ پھیلائے نیلے پر میرے من کا کھول جھروکا آئی پون اثر      ( ١٩٧٩ء، حلقہ میری زنجیر کا، ١٣٣ )
٢ - [ مجازا ]  آمنا سامنا۔
 پردہ کھل جائے گا ڈھورے پر اگر آئیں گے باغ ہمسائے میں ہے واں او نہیں بٹھلائیں گے      ( ١٨٦٨ء، شعلۂ جوالہ، ٥٣٥:٢ )