سنسکرت سے ماخوذ اسم 'ڈیرا' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے مشتق صیغۂ امر 'دار' لگانے سے مرکب 'ڈیرا دار' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٨٩ء کو "دیوان عنایت و سفلی" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : ڈیرا داروں [ڈے + را + دا + روں (و مجہول)]
١ - خیمہ نصب کرنے والا۔
کب یار کو ملائے گا، آئے یار کب تنوائے گا یہ تنبو مرا ڈیرہ دار کب
( ١٨٨٩ء، دیوان عنایت و سفلی، ٢٥ )
٢ - خاندانی طوائف جس کے ساتھ اس کا عملہ ہو نیز اس کی مستقل رہائش کی جگہ جہاں موسیقی وغیرہ کی تربیت دی جائے، خوشحال کسبی۔
"انہیں لکھنو کی ڈیرہ دارنیوں کی طرح امراؤ رؤسا کے لڑکوں کی تربیت کرتے تو نہیں سنا گیا البتہ دلی کے ہندو مسلمان عمائد ان کے درباری تھے۔"١٩٨٦ء، نیاز فتح پوری، شخصیت اور فکر و فن، ٣٥